ہمارا فیس بک پیج


بین الاقوامی شہرت کی حامل پاکستانی نژاد 29 سالہ امریکی شیف یا ماہر طباخ فاطمہ علی کی کینسر کے ہاتھوں المناک موت پر پوری دنیا میں ان کے چاہنے والے، دوست، ساتھی غم اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔
فاطمہ علی پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کی صاحبزادی تھیں۔ خاندانی ذرائع کے مطابق وہ 18 سال کی عمر میں نیویارک منتقل ہو گئیں جہاں انھوں نے شیف کے شعبے کا انتخاب کیا۔
فاطمہ علی کو بین الاقوامی شہرت سنہ 2017 میں امریکہ کے مشہور پروگرام 'ٹاپ شیف' میں شرکت سے ملی تھی۔ وہ اس پروگرام میں دسمبر 2017 سے مارچ 2018 تک شریک رہیں۔
فاطمہ علی یہ پروگرام جیت تو نہ سکیں مگر ان کا شمار آخری سطح تک مقابلہ کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ پروگرام کے دوران یہ خیال ظاہر کیا جاتا رہا کہ وہ ممکنہ طور پر مقابلہ جیتنے والوں کی دوڑ میں شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اسی پروگرام میں ان کے ساتھ شریک امریکہ کے کرس سکاٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ فاطمہ علی کے ساتھ ان کا پہلا تعارف 'ٹاپ شیف' پروگرام ہی میں ہوا تھا۔ پروگرام کے آغاز ہی میں ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرنے کے لیے منتظمین نے ایک چیلنج رکھا تھا جس میں ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرنے کے لیے الفاظ کا سہارا لیے بغیر کھانا پکا کر پیش کرنا تھا اور یہی کھانا ایک دوسرے سے تعارف کا ذریعہ تھا۔
کرس سکاٹ کا کہنا تھا کہ 50 آدمیوں کا کھانا پکانے کے لیے ایک گھنٹہ کا وقت تھا۔ اس دوران ہم سب بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ کبھی ادھر اور کبھی ادھر آ جا رہے تھے۔ فاطمہ علی بھی ان میں شامل تھیں۔ اس موقع پر کسی کو کسی کی مدد کرنے کا کیا ہوش ہوتا مگر جب مجھے ایک دو مرتبہ مدد کی ضرورت پڑی تو میں نے طلبگار نظروں سے دیکھا تو فاطمہ سمجھ گئیں اور انھوں نے میری مدد کی۔
ایسے موقعے پر جب ہر کسی کو صرف اپنی پڑی ہو مدد تو صرف وہ ہی کر سکتا ہے جو انتہائی حساس دل اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔

بین الاقوامی شہرت کی حامل پاکستانی نژاد 29 سالہ امریکی شیف یا ماہر طباخ فاطمہ علی کی کینسر کے ہاتھوں المناک موت پر پوری دنیا میں ان کے چاہنے والے، دوست، ساتھی غم اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔
فاطمہ علی پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کی صاحبزادی تھیں۔ خاندانی ذرائع کے مطابق وہ 18 سال کی عمر میں نیویارک منتقل ہو گئیں جہاں انھوں نے شیف کے شعبے کا انتخاب کیا۔
فاطمہ علی کو بین الاقوامی شہرت سنہ 2017 میں امریکہ کے مشہور پروگرام 'ٹاپ شیف' میں شرکت سے ملی تھی۔ وہ اس پروگرام میں دسمبر 2017 سے مارچ 2018 تک شریک رہیں۔
فاطمہ علی یہ پروگرام جیت تو نہ سکیں مگر ان کا شمار آخری سطح تک مقابلہ کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ پروگرام کے دوران یہ خیال ظاہر کیا جاتا رہا کہ وہ ممکنہ طور پر مقابلہ جیتنے والوں کی دوڑ میں شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اسی پروگرام میں ان کے ساتھ شریک امریکہ کے کرس سکاٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ فاطمہ علی کے ساتھ ان کا پہلا تعارف 'ٹاپ شیف' پروگرام ہی میں ہوا تھا۔ پروگرام کے آغاز ہی میں ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرنے کے لیے منتظمین نے ایک چیلنج رکھا تھا جس میں ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرنے کے لیے الفاظ کا سہارا لیے بغیر کھانا پکا کر پیش کرنا تھا اور یہی کھانا ایک دوسرے سے تعارف کا ذریعہ تھا۔
کرس سکاٹ کا کہنا تھا کہ 50 آدمیوں کا کھانا پکانے کے لیے ایک گھنٹہ کا وقت تھا۔ اس دوران ہم سب بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ کبھی ادھر اور کبھی ادھر آ جا رہے تھے۔ فاطمہ علی بھی ان میں شامل تھیں۔ اس موقع پر کسی کو کسی کی مدد کرنے کا کیا ہوش ہوتا مگر جب مجھے ایک دو مرتبہ مدد کی ضرورت پڑی تو میں نے طلبگار نظروں سے دیکھا تو فاطمہ سمجھ گئیں اور انھوں نے میری مدد کی۔
ایسے موقعے پر جب ہر کسی کو صرف اپنی پڑی ہو مدد تو صرف وہ ہی کر سکتا ہے جو انتہائی حساس دل اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔

No comments:

Post a Comment